معروف مزاحیہ اداکار لہری ایک اکیڈمی تھے

فن کی دنیا کے شہنشاہ 

فن کی دنیا کے شہنشاہ اور اپنے چلبلے جملوں سے دنیا کو ہنسانے والا معروف اداکار لہری 83 برس کی عمر وچ خالق حقیقی سے جا ملے ۔ فلمی دنیا کا اک ایسا  باب بند ہوگیا جس نے اپنی محنت اورصلاحیتوں سے اپنی جگہ بناکر عوام کے دلوں پر حکومت کی ۔ لہری نے ایسے باکمال فنکار تھے کہ جن کے فن کی جتنی تعریف کے لئے جہاں الفاظ نہیں ملتے وہیں ان کے ساتھی ادکار کہتے ہیں ان کے اخلاق کی اس قدر تعریف کرتے نظر آتے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔

 

اداکار لہری کا اصلی نام سفیر اللہ تھا ۔ 1931 میں بھارتی شہر کان پور میں پیدا ہوئے تو ان کے ماں پاپ نے کا نام سفیر اللہ رکھا ۔ پاکستان بنا تو سفیر اللہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے  اور اسلامیہ کالج سے انٹر تک کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ غم روزگار کے لئے انہوں نے ہر کام کیا پر ان کو نہیں پتہ تھا کہ سرکاری محکموں میں اسٹنیو ٹائپسٹ کی حثیثت ٹک ٹک کرکے کاغذوں پر کھیلنے والا سفیر اللہ کا نام اک دن سر چڑ کر بولے گا ۔ صدر میں ہورزی کا سامان بچنے والا  خود بھی اپنی آنے والی  قسمت کا نہیں پتہ تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ ان نام دنگا پوری دنیا میں گونجے گا ۔ لہری نے فن کی دنیا میں پہلا قدم اسلامیہ کالج میں ایک فنکشن میں مریض عشق کے نام ایک ڈرامے میں پرفامنس دے کر کیا جس میں ان کو بے انتہا پذیرائی ملی اپنی اس  شاندار کارگردگی سفیر اللہ ہوگئے خوش فہمی کا شکار اور پہنچ گئے ریڈیو پاکستان پر ریڈیو پاکستان کے پہلے آڈیشن میں فیل قرار دے دیا گیا لیکن باہمت اور محنتی انسان نے ہمت نہیں ہاری اور انتھک محنت کے بعد آخر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور ان کی ملاقات ہوئی شیخ حسن لطیف المعروف لچھو سیٹھ کے ساتھ جو آن دنوں فلم انوکھی بنا رئے تھے اور سفیر اللہ کو اپنی قسمت آزمانے کا اس فلم میں موقع ملا اور ان کے مدمقابل ہیروئن بھارتی اداکارہ شیلا رمانی تھی ۔1956 میں بنائی جانے والی  انوکھی فلم میں لہری کی برجستہ مزاحیہ اداکاری نے فلم بینوں کو بہت متاثر کیا اس کے بعد تو سفیر اللہ عرف لہری پر قسمت کے دروازے کھلتے چلے گئے اور پھر انسان بدلتا ہے، رات کے راہی، فیصلہ، جوکر، کون کسی کا، آگ، توبہ، جیسے جانتے نہیں، دوسری ماں، اِک نگینہ، اِک مسافراِک حسینہ، چھوٹی امی، تم ملے پیار ملا، بہادر، نوکری، بہاریں پھر بھی آئیں گی، افشاں، رم جھم، بالم، جلتے سورج کے نیچے، پھول میرے گلشن کا، انجان، پرنس، ضمیر، آنچ، صائمہ، دل لگی، آگ کا دریا، ہمراز، دیور بھابھی، داغ، نئی لیلیٰ نیا مجنوں، بندھن، تہذیب، دلہن رانی، زبیدہ، زنجیر، نیا انداز، موم کی گڑیا، جلے نہ کیوں پروانہ، گھرہستی، رسوائی، بدل گیا انسان، اپنا پرایا، دو باغی، سوسائٹی، انہونی، ننھا فرشتہ، ایثار، دامن، آنچل، پیغام، کنیز ان کی معروف فلموں میں شامل ہوئی اور اعداد و شمار کے مطابق 220 فلموں میں لہری نے اپنے طنز ومزاح سے بھر پور اداکاری کے جوہر دیکھا کرفن کی دنیا میں  شہنشاہ بن گئے۔ لہری نے تین پنجابی فلموں میں بھی کام کیا.

سفیر اللہ عرف لہری 1983 میں بنکاک میں فلم کی عکس بندی کے دوران ان کو پہلا فالج کا اٹیک ہوا جس کے بعد  وہ ذیا بیطس اور سانس کے عارضے میں مبتلہ رہے ۔ ذیابطیس کی وجہ سے ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی جو ان کی زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا پر انہوں نے صبر سے کام لیا اور موت سے جنگ بھر پور انداز میں لڑی۔ لہری نے کافی عرصے تک علیل زندگی گزاری پر گورنر سندھ عشرت العباد سمیت کئی دوسرے اداکارہ و سماجی رہنماوں نے ان کا خیال رکھا.

لہرہ نے اپنے فنی کیریئر میں بہت سے ایوارڈز اپنے نام کیا وہ واحد مزاحیہ اداکار تھے جہنوں نے 12 مرتبہ اپنی منفرد اداکاری پر نگار ایوارڈز حاصل کیے اور حکومت پاکستان نے ان کی اس خدمات پر 1996 میں حسین کارگردگی کے ایوارڈ سے نوازا۔

ایک مہینے سے لہری وینٹی لیٹر پر تھے اورگذشتہ روز 13 ستمبر2012  کو اپنے لاکھوں مداحواں کو روتا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ اداکاری لہری پاکستان فلم انڈسٹری کے لئے ایک اکیڈمی کی حثیثت رکھتے تھے اور ہمیشہ رہے گے

NUSRAT ZEHRA

COPY EDITOR

KARACHI

نصرت زہرا _

کراچی 

تبصرہ کریں